ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے – غالپ اسے گماں ہے کہ میری اڑان کچھ کم ہےمجھے یقیں ہے کہ یہ آسمان کچھ کم ہے – نفس انبالوی۔ زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا -احمد ندیم قاسمی سورج لحاف اوڑھ کے سویا تمام رات سردی سے اک پرندہ دریچے میں مر گیا جو ناخدا کو کہہ نہ سکا عمر بھر خدا وہ شخص, ،کل انا کے جزیرے میں مر گیا اطہر ناسک میرے مزار پہ آ کر دئیے جلائے گا وہ میرے بعد میری زندگی میں آئے گا، سیکھے ہیں مہ رخوں کے لئے ہم مصوری، تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہؕے غالب ایک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے احمد مشتاق گلشن کی فقط پھولوں سے نہیں کانٹوں سے بھی زینت ہوتی ہے، جینے کے لئے اس دنیا میں غم کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جس جکہ بیٹھے میرا چرچا کیا، خود ہوئے رسوا مجھے رسوا کیا داغ دہلوی زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمین، پائوں پھیلائوں تو دیوار میں سر لگتا ہے، بشیر بدر